*اللہ کی تقسیم سے اختلاف*
٭کسی نے شادی کرلی اور دس سال تک صاحب اولاد ہونے کا منتظر رہا، اور دوسری طرف کسی کو شادی کے پہلے برس ہی اولاد ِنرینہ کی نعمت مل گئی۔۔
٭کسی نے بائیس سال کی عمر میں امریکہ سے گریجویشن کیا اور پانچ سال ایک اچھی ملازمت کے حصول میں دھکےکھاتا رہا، اور دوسری طرف ایک شخص ستائیس سال کی عمر میں سرکاری یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوا اور فوری طور پر اسے اسکی "ڈریم جاب" مل گئی۔
٭ کوئی پچیس سال کی عمر میں کروڑ پتی اور اپنے بزنس کا مالک تو بن گیا مگر اسکی اولاد انتہائی نااہل، نکمی اور ان پڑھ رہی اور دوسری طرف ایک شخص نے بچپن سے غربت اور محرومیاں دیکھیں مگر پچاس سال کی عمر اس کے بچے پڑھ لکھ کر سول اور ملٹری بیوروکریٹس بنے، بزنس ٹائیکون بنے کہ کروڑ پتی افراد بھی اس کی قسمت پر رشک کرنے لگے۔
ہم میں سے ہر شخص اپنی نیت اور مسلسل جدوجہد سے اپنی معاشی حالت کو بدلتاہے۔ مگر قسمت اور تقدیرکا "فیکٹر" ان سب سے اوپر ہے۔
آپ کے کلاس فیلو، دوست یا رشتہ دار یا آپ سے عمر میں چھوٹے لوگ بظاہر آپ سے آگے ہو سکتے ہیں،
ان سے جیلس نہ ہوں اور نہ اللہ سے بدگمان ہوں کہ اس کو یہ کیوں دیا اور مجھے کیوں نہ دیا نہ اس کی شکل ہے نہ عقل اللہ نے کیا دیکھ کے اس کو یہ سب دے دیا؟ اس میں ایسی کیا خوبی اور صلاحیت ہے جو مجھ میں نہیں؟
صحت تندرستی، اولاد، تعلیم، عزت شہرت، تعلیم، جاب دولت گاڑی بڑا گھر یہ سب اللہ کی تقسیم اور اس کی عطا ہے اس لیئے اللہ کی تقسیم سے اختلاف اور اس کو چیلنج مت کیجئے۔ جو آپ کی قسمت میں ہے وہ کوئی چھین نہیں سکتا اور جو نہیں ہے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ ہر نعمت کو دیکھتے ہی آپ کی سوچ اس انسان کی بجائے اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے جس نے درحقیقت اسکو یہ نعمت عطاکی۔
کسی سے پوچھا گیا "حسد" کیا ہے؟ فرمایا اللہ کی تقسیم سے اختلاف رکھنا۔
ہم کیسے نادان لوگ ہیں جو اپنے مالک سے نعمت کا سوال تو کرتے نہیں لیکن کسی اور پہ کرم ہوتا دیکھ نہیں سکتے۔ ہم دن میں کئی بار اللہ کی تقسیم سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور "مجھ میں کیا کمی ہے" کہہ کے اس کی تقسیم کو چیلنج بھی کرتے ہیں اور پھر سکون اطمینان سےخالی دل کا شکوہ بھی کرتے ہیں !!!